ایمڈابول (تھائیومیسٹیرون)

تعارف:۔

تھائیو میسٹیرون منہ کے راستے استعمال ہونے والا اینابولک سٹیرائیڈ ہے جو ٹیسٹوسٹیرون سے اخذ شدہ ہے ۔ یہ کیمیائی طور پر میتھائل ٹیسٹوسٹیرون سے بہت زیادہ مماثلت رکھتا ہے تاہم اس وابستگی کے باوجود یہ مرکب اینڈروجینک کی نسبت بہت زیادہ اینابولک خصوصیت کا حامل ہے ۔ مزید یہ کہ لیبارٹری میں کیے جانے والے معیاری تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی اینابولک طاقت اس کی اینڈروجینک طاقت کی نسبت 7.5گنا زیادہ ہے۔ ملی گرام مقدار کا موازنہ کیا جائے تو یہ میتھائل ٹیسٹوسٹیرون کی نسبت تقریباً 4.5گنا زیادہ اینابولک خصوصیات کا حامل ہے جب کہ اس کا اینڈروجینک جزو صرف 60فیصد ہے ۔ اگرچہ یہ مقداریں طاقت اور اینابولک /اینڈروجینک جزو کی علیحدگی کے لحاظ سے انسانوں میں کچھ حد تک مختلف ہوسکتی ہیں لیکن تھائیومیسٹیرون اب بھی مقبول اینابولکس سٹینوزول اور آکسینڈرولون کی طرح اسی گروپ میں ہے ۔ یہ دوا اگرچہ کھلاڑیوں کی طرف سے بہت کم استعمال کی گئی لیکن خلیات میں پانی جمع کرنے اور کوئی قابل قدر مضر اثرات کا سبب بنے بغیر پٹھوں کے حجم میں خالص اضافہ کی وجہ سے اسے بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔

پس منظر:۔

تھائی میسٹیرون سب سے پہلے 1964میں متعارف ہوا۔ 1اسے E.Merck AG نے تیار کیا اور سولہویں جرمن تھراپی کانگریس اور فاماسیوٹیکل نمائش میں پیش کیا۔ 2 مرک نے اس مرکب کو روایتی نام تھائیو میسٹیرون (ٹرائی اومیسٹیرون) دیا اور جرمنی میں اسے تجارتی نام ایمڈابول کے طور پر فروخت کیا ۔ یہ سٹیرائیڈ منہ کے راستے استعمال کرنے کےلیے تیار کیا گیا تھا اور کمزوری کا سبب بننے والےتمام عارضہ جات اور جسمانی کمزوری کے علاج کے لیے تجویز کیا جات تھا ۔ اس کو عمومی اینابولک مرکب کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا خاص طور پر ان صورتوں میں جب شدید قسم کے عارضہ یا کمزوری کی حالت کی وجہ سے وزن میں اضافہ ضروری ہوتا تھا۔ مرک نے 1969میں یہ کہتے ہوئے اس دوا کو عوام میں متعارف کرایا کہ “ اس کی اینابولک سرگرمی/طاقت میتھائل ٹیسٹوسٹیرون کی نسبت دوگنا ہے ۔ اس کا اینابولک/اینڈروجینک انڈیکس نہایت موزوں ہے اور اس کے پروجیسٹیشنل اور منریلوکارٹیکائیڈ مضر اثرات بالکل نہیں ہیں”۔

جرمنی میں متعارف ہونے کے بعد تھائیومیسٹیرون سویڈن میں AB Dragon کمپنی کی جانب سے سے تیار ہونے لگا جس نے اسے پروٹابول کے نام سے فروخت کیا۔ مر ک نے اسے کچھ عرصہ کے لیے سپین میں بھی فروخت کیا جہاں اس کا نام وِٹابونیفین فورٹ تھا جو کہ وٹامن پر مشتمل دوا تھی اور اس میں تھائیومیسٹیرون اور دیگر اجزاء بھی شامل تھے ۔ وِٹابونیفین کو بڑھاپے میں واقع ہونے والی قوت و توانائی کی کمی ، وزن میں کمی، ہڈیوں کے نرم پڑجانے (اوسٹیوپوروسس) کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا ۔ اس دوا میں Bromelains بھی شامل تھے جو کہ پروٹین کی توڑ پھوڑ کرنے والے انزائم ہیں جنہیں انناس کے پودے سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ یہ انزائم خوراک میں موجود پروٹین کے ہاضمے میں مدد دیتے ہیں ۔ یورپ سے باہر یہ دوا  بہت کم تیار ہوتی تھی ۔ واحد پروڈکٹ (جو یورپ سے باہر

ساختی خصوصیات:۔

تھائیومیسٹیرون ٹیسٹوسٹیرون کی ترمیم شدہ شکل ہے ۔ درج ذیل بنیادوں پر یہ ٹیسٹوسٹیرون سے مختلف ہے :۔ (1 C-17الفا پر میتھائل گروپ کا اضافہ جو

تیار ہوتی تھی) ایمڈابولِن تھی جو ٹوکیو، جاپان میں واقع کمپنی Chugai Labs کی جانب سے تیار کی جاتی تھی ۔ تاہم تھائیومیسٹیرون پر مشتمل اس طرح کی تمام پروڈکٹس کی فروخت تب سے بند کردی گئی ہے اور کھلاڑیوں کو یہ دوا اب تجارتی سطح پر دستیاب نہیں ہے ۔ کھلاڑیوں کی طرف سے اس سے متعلق بہت زیادہ چہ مگوئیاں کی جاتی تھیں ۔ جب یہ سٹیرائیڈ دستیاب تھا اس کا استعمال محدود تھا حتیٰ کہ یورپی کھلاڑی بھی اسے زیادہ استعمال نہیں کرتے تھے جس کی وجہ اس کی محدود دستیابی تھی۔ اسی طرح امریکہ میں یہ پروڈکٹ کبھی دیکھی بھی نہیں گئی تھی۔ 30سال پہلے امریکی باڈی بلڈرز کو تھائیومیسٹیرون کے بارے میں صرف افواہیں سنائی جاتی تھیں کہ کس طرح یہ نایاب اور بہت زیادہ طلب کیا جانے والا اینابولک سٹیرائیڈ ہے ۔ کوئی بھی شخص اس کا کورس/سائیکل مکمل نہیں کرسکا تھا جس کی وجہ سے اس کے بارے میں افواہوں میں مزید اضافہ ہوا ۔ اس وقت مغرب میں اس مرکب کے بارے میں بہت کم معلوم تھا حتیٰ کہ اس کی کیمیائی ساخت بھی انتہائی پیچیدہ تھی ۔ Dan Duchaine اپنی کتاب Underground Steroid Handbook II only میں لکھتے ہیں کہ “یہ پیچیدہ تھائیومیسٹیرون ہے جسے تحقیق میں ہمیشہ قابل اعتماد، طاقتور اینابولک اور اینڈروجینک مضر اثرات سے پاک اینابولک لکھا جاتا ہے ۔ اگر آپ کو اس طرح کا کوئی مرکب ملے تو مجھے بھی آگاہ کریں ۔ چند اور کتابوں میں بھی اس کا ذکرکیا گیا ہے ۔

چندسالوں کے دوران میں اس سٹیرائیڈ کے بارے میں حقیقی آراءبہت کم ہے جس کا حوالہ دیا جاسکے تاہم اس کی بطور دوا خصوصیات کے بارے میں کافی کچھ معلوم ہے جس سے ہم ماضی کے مقابلے میں اب اس کی زیادہ تفصیل بیان کرسکتے ہیں۔ مذکورہ بالا تفصیلات کے مطابق اس کی اینابولک اور اینڈروجینک خصوصیات کا جائزہ لیا گیا جو کافی حد تک موزوں ثابت ہوئیں ۔ 1966میں شائع ہونے والی تحقیقات میں بھی تھائی میسٹیرون کو ہڈٰیوں پر کارٹیکو سٹیرائیڈز کے تخریبی اثرات کو روکنے کے لیے میتھائل ٹیسٹوسٹیرون ، میتھینولون ایسیٹیٹ یا میتھینڈروسٹینولون کی مساوی مقداروں کے مقابلے میں زیادہ موثر مرکب کے طور پر بیان کیا گیا ہے ۔3اس کے باوجود اس کے اثرات دیگر طاقتور اینابولک مرکبات کے مساوی ہیں اور اس میں کوئی غیر معمولی/قابل ذکر چیز نہیں پائی گئی ۔ اگرچہ تھائیو میسٹیرون حقیقت میں ایک موثر دوا ہوسکتی ہے اور اس کے استعمال سے مضر اثرات کے سامنےآنے کے امکانات کم ہوتے ہیں لیکن یہ اس قدر خالص اینابولک مرکب نہیں ہے جتنا پچھلے 30سال سے اس کے بارے میں افوائیں موجود تھیں۔ سادہ سی بات یہ ہے اگر کوئی فرد ٹشوز کی نشونما چاہتا ہے تو اس مقصد کے لیے اس سٹیرائیڈ مرکب میں نہایت موزوں خصوصیات موجود ہیں (بانسبت اینڈروجن کےاور زیادہ تر استعمال کنندگان میں یہ ایناوار (آکسینڈرولون) کی طرح کام کرتا ہے ۔

کس طرح فراہم کیا جاتا ہے ؟

تھائیو میسٹیرون اب نسخہ جاتی دوا کے طور پر دستیاب نہیں ہے ۔ جب اس کی پیداوار جاری تھی تو منہ کے راستے استعمال ہونے والی گولی کی شکل میں دستیاب تھا ۔ 

اثرات میں HDL(اچھے) کولیسٹرول لیول میں کمی کا سبب بننا اور LDL(بُرے) کولیسٹرول میں اضافہ کا سبب بننا شامل ہیں جس کے نتیجے میں HDLاور LDL کے توازن میں اس طرح کی تبدیلی آتی ہے جو صلابت شریان (یعنی خون کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کے امکانات) میں

منہ کے راستے استعمال کرنے پر سٹیرائیڈکو محفوظ رکھتا ہے اور (2 کاربن نمبر 1اورکاربن نمبر 7 پر تھائیو ایسیٹائل گروپ کا اضافہ جو ایروماٹائزیشن اور 5۔الفا ریڈکشن کے عمل کوروکتے ہیں اور اینابولک /اینڈروجینک نسبت میں اس طرح کی تبدیلی لاتے ہیں کہ سٹیرائیڈ زیادہ اینابولک خصوصیات کا حامل ہوجاتا ہے ۔ تھائیو میسٹیرون کی اینابولک طاقت میتھائل ٹیسٹوسٹیرون کی نسبت کافی زیادہ ہے جب کہ اینڈروجینک صلاحیت بہت کم ہوتی ہے ۔

(ایسٹروجینک ) مضر اثرات:۔

تھائیومیسٹیرون کی جسم میں ایروماٹائزیشن نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ زیادہ ایسٹروجینک خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ۔ اس سٹیرائیڈ کو استعمال کرتے ہوئے اینٹی ایسٹروجن کی ضرورت نہیں ہوتی کیوں کہ گائینیکو میسٹیا جیسے مضر اثرات حساس افراد میں بھی دیکھنے کو نہیں ملتے ۔ ایسٹروجن کے استعمال سے جسم میں پانی جمع ہوجاتا ہے لیکن اس کے برعکس کلوسٹیبول جسم کی معیاری نشونما کرتا ہے اور شباہت میں بہتری لاتا ہے اور زیر جلد پانی جمع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس بنا پر یہ اس سٹیرائیڈ کو جسمانی بناوٹ میں بہتری لانے کے مرحلہ پر ترجیح دی جاتی ہے جب پانی اور چربی کا ذخیرہ ہونا باعث تشویش ہوتا ہے ۔

(اینڈروجینک) مضر اثرات:۔

اگرچہ اسے اینابولک سٹیرائیڈ تصور کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے استعمال سے اینڈروجینک مضر اثرات سامنے آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ ان میں جلد میں تیل کا زیادہ پیدا ہونا، کیل مہاسے اور جسم/چہرے پر بالوں کا اگنا وغیرہ کے امکانات ہوتے ہیں ۔ وہ مرد جن میں بالوں کا گرنا وراثتی خصوصیات میں شامل ہو (اینڈروجینک ایلوپیشیا) ان میں بالوں کے گرنے کی رفتار تیز ہوجائے گی ۔ عورتوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے اینابولک/اینڈروجینک  سٹیرائیڈز کے استعمال سے ان میں ممکنہ طور پر مردانہ خصوصیات ظاہر ہوسکتی ہیں خاص طور پر طاقتور اینڈروجن جیسا کہ ٹیسٹوسٹیرون وغیرہ استعمال کرنے سے۔ ان علامات میں آواز کا بھاری پن ، ماہواری میں بے قاعدگیان، جلد کی بناوٹ میں تبدیلیاں ، چہرے پر بالوں کا اگنا اور کلائٹورس کا بڑھ جانا وغیرہ شامل ہیں ۔علاوہ ازیں 5۔الفا ریڈکٹیز انزائم تھائیومیسٹیرون کی میٹابولِزم (توڑپھوڑ) نہیں کرتا اس لیے فیناسٹیرائیڈ یا ڈیوٹاسٹیرائیڈ کے استعمال سے اس کی اینڈروجینیسٹی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

نوٹ فرمائیں کہ تھائیومیسٹیرون ایک ایسا سٹیرائیڈ ہے جس کی اینڈروجینک سرگرمی اس کی ٹشوز کی نشونما کی سرگرمی کی نسبت بہت کم ہے جس کی وجہ سے اینڈروجینک مضر اثرات  کا محرک دیگر اینڈروجینک مرکبات جیسا کہ ٹیسٹوسٹیرون، میتھینڈروسٹینولون یا فلوآکسی میسٹیرون کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔

مضر اثرات (جگر کا زہریلا پن):۔

میتھائل اینڈروسٹین ڈائی اول C-17الفا الکائلیٹڈ مرکب ہے ۔ یہ تبدیلی اسے جگر کی طرف سے غیر فعال ہونے سے محفوظ رکھتی ہےجس کی وجہ سے منہ کے راستے استعمال کرنے پر اس کی بہت بڑی مقدار خون میں پہنچتی ہے۔ C-17الفا الکائلیٹڈ اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز جگر کے زہریلے پن کا سبب بن سکتے ہیں۔زیادہ مقدار میں یا طویل عرصہ تک استعمال کرنے کی صورت میں جگر کو نقصان پہنچتا ہے ۔ بعض صورتوں میں جگر کا مہلک عارضہ بھی پیش آسکتا ہے۔ تجویز یہی کیا جاتا ہے کہ اس سٹیرائیڈ کے استعمال کے دوران ڈاکٹر کے پا س وقفے وقفے سے جایا جائے تاکہ جگر کے فعل اور مجموعہ صحت کا جائزہ لیا جاتا رہے ۔ C-17الفا الکائلیٹڈ سٹیرائیڈز کے استعمال کا دورانیہ 6تا8ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے تاکہ جگر پر تناؤ کو بڑھنے سے روکا جاسکے۔جگر پر زہریلے اثرات مرتب کرنے والے اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز استعمال کرتے ہوئے جگر کے زہریلے پن کو ختم کرنے والے اجزاء جیسا کہ لِور سٹبِل، لِو۔52یا ایسنشیل فورٹ کا استعمال تجویز کیاجاتا ہے ۔

(نظام دوران ِ خون ) پر مضر اثرات :۔

اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز سیرم میں موجود کولیسٹرول پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ان مضر

اضافہ کا سبب بنتا ہے ۔ سیرم میں لپڈز کی  مقدار پر اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز کا اثر اس کی استعمال ہونے والی مقدار، استعمال کے راستہ (منہ کے راستے یا انجکشن کی شکل میں)، سٹیرائیڈ کی قسم (ایروماٹائزیبل یا نان ایروماٹائزیبل) اور جگر کی طر ف سے کی جانے والی توڑ پھوڑ کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہوتا ہے ۔اگرچہ انسانوں میں اس مرکب کے استعمال سے متعلق جامع تحقیق نہیں کی گئی لیکن طاقتور ہونے اور ایروماٹائزیشن کے عمل سے نہ گزرنے کی وجہ سے تھائیومیسٹیرون کے بارے میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مرکب خون میں لپڈز کی مقداروں پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے اور خون کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کے امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے ۔ ۔ اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز بلڈ پریشر اور  ٹرائی گلائسرائیڈز پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یہ شریانوں کی اندرونی تہہ کے پھیلاؤ میں کمی لاتے ہیں اور دل کے بائیں وینٹریکل کے حجم میں اضافہ میں معاونت کرتے ہیں ۔ یہ سب عوامل نظام دوران خون کے عارضہ جات اور ہارٹ اٹیک کے امکانات میں ممکنہ طور پر اضافہ کا سبب بنتے ہیں ۔

نظام دوران خون پر تناؤ میں کمی لانے کے لیے یہی تجویز کیا جاتا ہے اس نظام کے لیے ایک فعال ورزش پروگرام کو برقرار رکھا جائے اوراینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز کے استعمال کے تمام دورانیہ کے دوران  سیر شدہ لمحیات ، کولیسٹرول اور سادہ کاربوہائیڈریٹس کے استعمال کو کم کیا جائے ۔ مچھلی کا تیل (4گرام فی یوم) اور قدرتی کولیسٹرول /اینٹی آکسیڈنٹ فارمولا جیسا کہ لِپڈ سٹیبل یا اس سے ملتے جلتے اجزاء کی حامل پروڈکٹ کااستعمال تجویز کیا جاتا ہے ۔

مضر اثرات(قدرتی ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں کمی) :۔

جب کسی بھی اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈ کو پٹھوں کی نشونما کے لیے ضروری موزوں مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے تو توقع یہی کی جاتی ہے وہ ٹیسٹوسٹیرون کی قدرتی پیداوار کو روک دے گا. ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کو تحریک دینے والی ادویات کے استعمال کے بغیر 1تا4ماہ کے اندر اس کا نارمل لیول بحال ہوجانا چاہیئے۔ ۔ نوٹ فرمائیں کہ سٹیرائیڈز کے بے جا /غلط استعمال کے نتیجے میں جنسی ہارمونز کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے علاج معالجہ ضروری ہوجاتا ہے ۔

مذکورہ بالا مضر اثرات حتمی نہیں ہیں ۔ سٹیرائیڈز کے ممکنہ مضر اثرات پر مزید تفصیل کے لیے اس کتا ب کا سیکشن سٹیرائیڈز کے مضر اثرات ملاحظہ فرمائیں۔

استعمال (عمومی):۔

استعمال سے متعلق ہدایات کے مطابق منہ کے راستے استعمال ہونے والے سٹیرائیڈز کو کھانا کھائے بغیر یا کھانے کے ساتھ استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جسم میں اس کی دستیابی کے فرق کو عموماً زیادہ اہم نہیں سمجھا جاتا ۔ تاہم 2016میں نوزائیدہ بچوں پر کی جانے والی تحقیق کے مطابق آکسینڈرولون کو اگر براہ راست لمحیات (MCT Oil) میں حل کردیا جائے تو اس کے انجذاب میں کافی بہتری آتی ہے ۔

4

اگر خوراک میں لمحیات (فیٹ) کی مقدار موجود ہو تو اس سٹیرائیڈ کو خوراک کے ساتھ استعمال کرنے پر یہ زیادہ مفید رہتا ہے ۔

استعمال (مردوں میں):۔

جسمانی بناوٹ اور کارکردگی میں بہتری کے لیے موثر کوراک کی حد 15تا25ملی گرام فی یوم ہے جسے 6تا8ہفتوں سے زیادہ عرصہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا تاکہ جگر کو تناؤ سے بچایا جاسکے ۔ اس کے استعمال سے قابل قدر نشونما، قوت وتوانائی میں اوسط درجہ کا اضافہ، پٹھوں کی بناوٹ میں بہتری اور خون کے بہاؤ میں بہتری آنے کے امکانات ہوتے ہیں۔تھائیو میسٹیرون عمومی طور پر ایک ہمہ گیر سٹیرائیڈ ہے اور جسمانی بناوٹ میں بہتری کی غرض سے استعمال کے لیے انجکشن کی شکل میں دستیاب دیگر اوسط درجہ کے اینابولکس جیسا کہ پرائموبولان یا ڈیکا ڈیورابولِن کے ساتھ اس کا اچھا اشتراک بننا چاہیئے یا پھر پٹھوں کے حجم میں اضافہ کے لیے  طاقتور اینڈروجنز/ایروماٹائزیشن کے عمل سے گزرنے والے سٹیرائیڈز جیسا کہ ٹیسٹوسٹیرون یا بولڈینون کے

ساتھ اس کا بھی اس کا اچھا اشتراک سامنے آنا چاہیئے۔ یہ حقیقت کہ ایسٹروجن لیول کم رہے گا، اس مرکب کو مقابلے کی تیاری یا جسم میں چُستی لانے کے لیے ایک موزوں مرکب بناتی ہے۔ تاہم اس کے ایسٹروجینک اور اینڈروجینک اجزاء کے کم مقدار میں ہونے کی وجہ سے یہ مرکب اپنے زیادہ حساس استعمال کنندگان کو جنسی خواہش کے ختم اور تھکاوٹ ہونے جیسے مضر اثرات سے دوچار کرسکتا ہے ۔ اس کی تلافی کے لیے عموماً کوئی دوسرا ایروماٹائزایبل یا زیادہ طاقتور اینڈروجینک مرکب استعمال کیا جاتا ہے (ٹیسٹوسٹیرون کو اس ضمن میں ترجیح دی جائے گی)۔

استعمال (خواتین میں):۔

جسمانی بناوٹ اور کارکردگی میں بہتری کے لیے موثر کوراک کی حد 5ملی گرام فی یوم یا اس سے کم ہے جسے 4تا6ہفتوں سے زیادہ عرصہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا تاکہ مردانہ خصوصیات جیسے مضر اثرات کے امکانات کو کم کیا جاسکے ۔ نوٹ فرمائیں کہ اگرچہ تھائیومیسٹیرون اپنی اینڈروجینک خصوصیات کی نسبت زیادہ اینابولک ہے لیکن اس کے باوجود مضر اثرات پھر بھی ممکن ہیں اور ان کی احتیاط کے ساتھ نگرانی کی جانی چاہیئے ۔

دستیابی:۔

تھائیو میسٹیرون اب نسخہ جاتی دوا کے طور پر دستیاب نہیں ہے ۔

1 Anabolic and androgenic efficacy of thio-substituted androstanes. Kraft, Hans Guenther et al. Merck AG, Darmstadt, Germany. ArzneimittelForschung (1964), 14:328-30.

2 Conference Reports: Therapy Congress and Pharmaceutical Exhibition. Angew. Chem. Internat. Edit. Vol. 4 (2) 1965.

3 Anticatabolic effect of steroids with anabolic activity. Luecker P.E. Merck AG, Darmstadt, Germany, Androgens Norm Pathol Cond. Proc. Symp. Steroid Horm., 2nd (1966). Meeting date 1965. 164-7.

4 Congenit Heart Dis. 2016 Jun 3. Use of Oxandrolone to Promote Growth in Neonates following Surgery for Complex Congenital Heart Disease: An Open-Label Pilot Trial. Burch PT, Spigarelli MG et al.