میتھوسارب (کیلسٹیرون)
وضاحت/تفصیل:
کیلسٹیرون منہ کے راستے استعمال ہونے والا اینڈروجن ہے جو ساخت کے لحاظ سے میتھائل ٹیسٹوسٹیرون سےمشابہت رکھتا ہے۔ میتھائل ٹیسٹوسٹیرون سے اس کا واحد فرق C-7بیٹا پر میتھائل گروپ کا اضافہ ہے جو تحقیقات کے مطابق سٹیرائیڈ کی (اینابولک/اینڈروجینک) سرگرمی کو ختم کردیتا ہے یا اس میں کافی حد تک کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس دوا کو چھاتی کے سرطان میں استعمال کے لیے اینڈروجنز جیسا کہ ٹیسٹوسٹیرون پروپیونیٹ اور فلوآکسی میسٹیرون کے کم زہریلے متبادل کے طور پر تیار کیا جاتا ہے ۔ یہ اینڈروجنز عورتوں میں طاقت ور مردانہ خصوصیات جیسے مضر اثرات کا سبب بنتےہیں۔ اسے ایک ایسے سٹیرائیڈ کے طور پر تیار کیا گیا تھا جو کم سے کم اینابولک اثر اور کم تا اوسط درجہ کی اینڈروجینک سرگرمی کا حامل تھا اور مجموعی طور پر 7۔الفا آئسومر مرکب (بولیسٹیرون) سے کافی حد تک مختلف تھا۔ اگرچہ تکنیکی طور پر یہ مرکب کچھ قدرتی خصوصیات کا حامل ہے لیکن کھلاڑیوں میں یہ مرکب کبھی بھی مقبول نہیں رہا اور جب اسے دیگر بے شمار اینابولک مرکبات کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو یہ ان کے مقابلے میں بہت کم فوائد کا حامل ہے۔
پس منظر:
کیلسٹیرون سب سے پہلے 1959میں متعارف کرایا گیا تھا۔ 1 1973میں یہ مرکب امریکہ میں فروخت کے لیے FDAکی طرف سے منظور ہوا۔2 Upjohn کمپنی نے اسے دوا کی شکل دی اور برانڈ نام Methosarb کے ساتھ فروخت کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ دیگر مگر محدود ممالک میں یہ Riedemil کے نام سے بھی فروخت ہوئی ۔ کیلسٹیرون کو ان خواتین میں چھاتی کے ناقابل آپریشن یا میٹاسٹیٹک (جو خون کے ذریعے جسم کے دیگر حصوں تک پھیلتا ہے) کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جن میں ماہواری قدرتی طور پر بند ہوگئی تھی یا کسی علاج معالجہ کے نتیجے میں بیضہ دانی نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ مرکب کے ابتدائی لٹریچر کے مطابق یہ تقریباً 25فی صد مریضوں میں موثر تھا بشرطیکہ وہ اس علاج کے لیے ضرور ی معیار پر پورا اترتے ہوں۔ یہ دوا چھاتی کے کینسر میں مبتلا مردوں میں بھی کامیابی کے ساتھ آزمائی گئی ، 3 اور یہ کینسر عموماً بہت کم واقع ہوتا ہے لیکن کچھ مردوں میں دیکھا گیا ہے ۔ خواتین میں چھاتی کے کینسر کے لیے کیلسٹیرون کے اثرات کے علاوہ یہ FDA کی طرف سےاینابولک مرکب یا کسی دوسری حالت میں علاج کے لیے استعمال ہونے کے لیے منظور نہیں کیا گیا تھا۔
جب کیلسٹیرون پہلی بار متعارف ہوا تو اسے چھاتی کے کینسر کے علاج کے لیے پہلے سے بہتر مصنوعی اینڈروجن کے طور پر بیان کیا گیا جو ٹیسٹوسٹیرون کی نسبت زیادہ موثر اور کم زہریلے اثرات کا حامل تھا۔ 4 یہ یقین کیا جاتا تھا کہ اس مالیکیول میں اس طرح کی ترمیم کی گئی تھی جس نے اس کے بہت سے غیر ضروری خواص کو ختم کردیا تھا۔ تاہم طبی تحقیق میں ان چیزوں کی تصدیق نہیں ہوئی اور یہ دوا اینڈروجن تھراپی میں استعمال ہونےوالی دیگر ادویات کی طرح کی افادیت اور مضر اثرات کی حامل تھی ۔ 1980 کی دہائی تک کیلسٹیرون کو برطانوی ادویات کی مارکیٹ سے رضا
کارانہ طور پر ختم کردیا گیا اور 2001میں Pharmacia & Upjohn کی درخواست پر اسے FDA کی علاج کے لیے استعمال ہونے والے مرکبات کی فہرست سے بھی خارج کردیا گیا ۔ آج یہ دوا پوری دنیا میں کہیں بھی دستیاب نہیں ہے ۔
فراہمی:
کیلسٹیرون اب نسخہ جاتی دوا کے طور پر دستیاب نہیں ہے۔ جب یہ تیار کی جاتی تھی تو 50ملی گرام کی گولیوں کی شکل میں دستیاب تھی۔
ساختی خصوصیات:
کیلسٹیرون دراصل ٹیسٹوسٹیرون کی ترمیم شدہ شکل ہے۔ درج ذیل بنیادوں پر یہ ٹیسٹوسٹیرون سے مختلف ہے : (1 کاربن 17الفا پر میتھائل گروپ کا اضافہ تاکہ منہ کے راستے استعمال کرنے پر ہارمون کو محفوظ رکھا جاسکے اور(2 کاربن7 (بیٹا) پر میتھائل گروپ کا اضافہ جو اس کی جسمانی سرگرمی میں قابل قدر کمی کا سبب بنتا ہے ۔
(ایسٹروجینک) مضر اثرات:
کیلسٹیرون کو قابل قدر ایسٹروجینک سرگرمی کا حامل سٹیرائیڈ تصور نہیں کیا جاتا ۔ تحقیقات میں ثابت ہوا ہے کہ یہ مرکب دراصل ایسٹروجن کی اپنے متعلقہ ریسپٹر کے ساتھ جڑنے کی صلاحیت میں کمی لاتا ہے ۔ 5 اسی طرح یہ مرکب کچھ حد تک اینٹی ایسٹروجینک اثرات بھی مرتب کرتا ہے ۔
(اینڈروجینک) مضرا ثرات:
کیلسٹیرون کو ایک اینڈروجن تصور کیا جاتا ہے ۔ اس مرکب کو استعمال کرنے پر اینڈروجینک مضر اثرات پیدا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں ۔ ان میں جلد کی چکناہٹ میں اضافہ ، کیل مہاسے اور جسم /چہرے پر بالوں کی نشونما کا ہونا شامل ہیں ۔ اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز مردوں میں گنجے پَن کے عوامل میں بگاڑ کا سبب بھی بن سکتے ہیں ۔ وہ افراد جو بالوں کے گرنے سے متعلق پریشان ہیں وہ اوسط درجہ کے ، کم اینڈروجینک خصوصیات کے حامل اینابولک سٹیرائیڈ کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ عورتوں کو اضافی طور پر اینابولک/اینڈڑوجینک سٹیرائیڈز کی وجہ سے ممکنہ مردانہ خصوصیات کے پیدا ہونے کے امکانات کے بارے میں بھی متنبہ کیا جاتا ہے ۔ ان میں آواز کا بھاری پن، ماہواری میں بے قاعدگیاں ، جِلد کی ساخت میں تبدیلیاں ، چہرے پر بالوں کا اگنا اور کلائٹورس کا بڑھ جانا شامل ہیں ۔ نوٹ فرمائیں کہ 5۔الفا ریڈکٹیز کا میتھائل اینڈروسٹین ڈائی اول پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے اس کے استعمال کے بعد فیناسٹیرائیڈ یا ڈیوٹاسٹیرائیڈ کے استعمال سے اس کی اینڈروجینک سرگرمی متاثر نہیں ہوتی۔
مضر اثرات (جگر کا زہریلا پن):
کیلسٹیرون C-17الفا الکائلیٹڈ مرکب ہے ۔ یہ تبدیلی اس دوا کو جگر کی طرف سے غیر فعال ہونے سے بچاتی
ہے اور منہ کے راستے استعمال کرنے پر اس دوا کی بہت بڑی مقدار خون میں پہنچ جاتی ہے ۔ C-17الفا الکائلیٹڈ اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز جگر کے زہریلے پن کا سبب بن سکتے ہیں۔ طویل عرصہ تک یا زیادہ مقدار میں استعمال کرنے پر جگر کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ کچھ صورتوں میں مہلک صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے ۔ تجویز یہی کیا جاتا ہے کہ اس سٹیرائیڈ کو استعمال کرنے کے ہر سائیکل کے دوران ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے تاکہ جگر کے فعل اور مجموعی صحت کی نگرانی کی جاسکے ۔c17الفا الکائلیٹڈ سٹیرائیڈ کو عام طور پر 6تا8ہفتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ جگر پر تنا ؤ سے بچا جاسکے۔ تحقیقات جن میں اس مرکب کو 200ملی گرام فی یوم کے حساب سے تین ماہ کے عرصہ تک استعمال کیا جاتا رہا ، کے نتیجے میں تقریباً ایک تہائی مریضوں کےجسم میں سلفو بروموفتھالین (BSP) کی مقدار میں اضافہ دیکھنے کو ملا جو کہ جگر پر تناؤ کی نشاندہی کرتا ہے ۔6
جگر کے زہریلے پن کا سبب بننے والے اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز کے استعمال کے دوران جگر کے زہریلے پن کو ختم کرنے والے غذائی اجزا جیسا کہ لِوَر سٹیبِل، لِو۔52 یا ایسنشیل فورٹ کا استعمال تجویز کیا جاتا ہے ۔
(نظام دورانِ خون پر ) مضراثرات:۔
اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز سیرم میں موجود کولیسٹرول پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ان مضر اثرات میں HDL(اچھے) کولیسٹرول لیول میں کمی کا سبب بننا اور LDL(بُرے) کولیسٹرول میں اضافہ کا سبب بننا شامل ہیں جس کے نتیجے میں HDLاور LDL کے توازن میں اس طرح کی تبدیلی آتی ہے جو صلابت شریان (یعنی
خون کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کے امکانات) میں اضافہ کا سبب بنتا ہے ۔ سیرم میں لپڈز کی مقدار پر اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز کا اثر اس کی استعمال ہونے والی مقدار، استعمال کے راستہ (منہ کے راستے یا انجکشن کی شکل میں)، سٹیرائیڈ کی قسم (ایروماٹائزیبل یا نان ایروماٹائزیبل) اور جگر کی طر ف سے کی جانے والی توڑ پھوڑ کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہوتا ہے ۔ استعمال کے راستہ اور جگر کی توڑ پھوڑ کے خلاف مزاحمت رکھنے والی ساخت کی بنیاد پر کیلسٹیرون متوقع طور پر جگر کی کولیسٹرول پر قابو پانے کی صلاحیت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے ۔ اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز بلڈ پریشر اور ٹرائی گلائسرائیڈز پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یہ شریانوں کی اندرونی تہہ کے پھیلاؤ میں کمی لاتے ہیں اور دل کے بائیں وینٹریکل کے حجم میں اضافہ میں معاونت کرتے ہیں ۔ یہ سب عوامل نظام دوران خون کے عارضہ جات اور ہارٹ اٹیک کے امکانات میں ممکنہ طور پر اضافہ کا سبب بنتے ہیں ۔
نظام دورانِ خون پر تناؤ میں کمی لانے کے لیے یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ نظام دورانِ خون کے لیے مفید اور فعال ورزش پروگرام برقرار رکھا جائے اور اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز(AAS) کے استعمال کے پورے دورانیہ کے دوران سیر شدہ روغنیات، کولیسٹرول اور سادہ کاربوہائیڈریٹس کا استعمال کم کردیا جائے۔ علاوہ ازیں مچھلی کا تیل (4گرام فی یوم) اور قدرتی کولیسٹرول /اینٹی آکسیڈنٹ فارمولا جیسا کہ لپڈ سٹیبل یا اس سے ملتی جلتی پروڈکٹ کا استعمال بھی تجویز کیا جاتا ہے ۔2
مضر اثرات(قدرتی ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں کمی) :۔
جب کسی بھی اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈ کو پٹھوں کی نشونما کے لیے ضروری موزوں مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے تو توقع یہی کی جاتی ہے وہ ٹیسٹوسٹیرون کی قدرتی پیداوار کو روک دیں گے۔ ۔ ٹیسٹوسٹیرون کو تحریک دینے والی ادویات کےاستعمال کے بغیر 1سے 4ماہ کے اندر اس کا لیول نارمل سطح پر آجانا چاہیئے۔ نوٹ فرمائیں کہ سٹیرائیڈز کے بے جا /غلط استعمال کے نتیجے میں جنسی ہارمونز کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے علاج معالجہ ضروری ہوجاتا ہے ۔
مذکورہ بالا مضر اثرات حتمی نہیں ہیں ۔ سٹیرائیڈز کے ممکنہ مضر اثرات پر مزید تفصیل کے لیے اس کتا ب کا سیکشن “سٹیرائیڈز کے مضر اثرات” ملاحظہ فرمائیں۔
استعمال (عمومی):۔
سٹیرائیڈز کو تجویز کرنے سے متعلق ہدایات کے مطابق منہ کے راستے استعمال کیے جانے والے سٹیرائیڈز کو کھانے کے ساتھ یا اس کے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ جسم میں اس کی دستیابی کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی ۔ تاہم 2016میں نوزائیدہ بچوں پر ہونے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئے کہ اگر آکسینڈرولون کو براہ راست روغنیات (MCT Oil) میں حل کردیا جائے تو اس کے انجذاب میں کافی حدتک بہتری آتی ہے۔ 7
اگر خوراک میں روغنیات کی موزوں مقدار موجود ہو تو اس سٹیرائیڈ کو کھانے کے ساتھ استعمال کرنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔
استعمال (مردوں میں):
کیلسٹیرون کو FDAکی جانب سے مردوں میں استعمال کے لیے منظور نہیں کیا گیاتھا تاہم منعقد کی جانے والی طبی تحقیقات مردوں میں اس کی مقدار خواتین میں استعمال کی جانے والی مقدار کے مساوی رکھنے کی تجویز دیتی ہیں۔ جسمانی بناوٹ یا کارکردگی میں بہتری کے لیے اس کی موثر مقدار کا تعین نہیں کیا گیا لیکن ممکنہ طور پر اس کی مقدار کی حد 100-200ملی گرام فی یوم ہوگی۔ نوٹ فرمائیں کہ یہ دوا طاقت ور اینابولک نہیں ہے اور پٹھوں کی نشونما میں اضافہ کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
استعمال (خواتین میں):
کیلسٹیرون کو طبی مقاصد کے لیے زیادہ تر 200ملی گرام فی یوم کے حساب سے استعمال کیا جاتا ہے جسے مسلسل 3ماہ کے عرصہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ 150تا 300ملی گرام فی یوم بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ نوٹ فرمائیں کہ مجوزہ مقدار میں استعمال کرنے پر تقریباً 25فیصد مریضوںمیں معمولی تا اوسط درجہ کے مردانہ خصوصیات جیسے مضر اثرات دیکھنے کو ملے جن میں آوا زکا بھاری پن، کیل مہاسے اور چہرے پر بالوں کا اگنا شامل ہے ۔ چونکہ یہ ایک کمزور اینابولک اور طاقت ور اینڈروجینک مرکب ہے اس لیے خواتین میں اسے جسمانی بناوٹ یا کارکردگی میں اضافہ کی غرض سے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
دستیابی:
کیلسٹیرون نسخہ جاتی دوا کے طور پر دستیاب نہیں ہے اور بَلیک مارکیٹ میں بھی عدم دستیاب ہے۔
1 The synthesis of some 7alpha and 7beta methyl steroid hormones. Campbell JA, Babcock JC. J Am Chem Soc 81:4069-74 (1959)
2 NDA 017383 Filed Aug 18, 1972. Approved Feb 20, 1973
3 Male breast cancer: two cases with objective regression from calusterone (7 alpha, 17 beta-dimethyltestosterone) after failure of orchiectomy. Horn Y, Roof B. Oncology 1976;33(4):188-91
4 Calusterone. Brodkin RA, Cooper MR. Ann Intern Med. 1978 Dec;89(6) 945-8.
5 Interference of gestagens and androgens with rat uterine oestrogen receptors. Di Carlo F, Conti G, Reboani C. J Endocrinol. 1978 Apr;77(1):4955
6 Antitumoral activity of calusterone in advanced mammary carcinoma. Rosso R, Brema, F et al. Tumori 1976 Jan-Feb 61(1):79-84
7 Congenit Heart Dis. 2016 Jun 3. Use of Oxandrolone to Promote Growth in Neonates following Surgery for Complex Congenital Heart Disease: An Open-Label Pilot Trial. Burch PT, Spigarelli MG et al.