20 AET-1(ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ)
وضاحت/تفصیل:۔
ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ حال ہی میں تیار کیا گیا اور انجکشن کی شکل میں دستیاب ٹیسٹوسٹیرون ہے جس میں انتہائی طویل ، تیل میں بہت زیادہ حل پذیر اور انتہائی سست روی سے کام کرنے والا بیوسی کلیٹ ایسٹر شامل کیا جاتا ہے (جسے عموماً 20-AET-1 کے نام سے جانا جاتا ہے )۔ یہ 20 کاربن ایٹمز پر مشتمل ہے اورانجکشن کی شکل میں دستیاب سٹیرائیڈز کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والا سب سے طویل ایسٹر ہے ۔ یہ پروپیونیٹ کی نسبت 7گُنا زیادہ طویل ہے جب کہ ایننتھیٹ کی نسبت 3گُنا اور ڈیکینوایٹ کی نسبت دوگُنا طوالت رکھتا ہے ۔ چونکہ ایسٹر کاربن کی مقدار کا اس کے اخراج سے قریبی تعلق ہے اس لیے ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ انجکشن کی شکل میں دستیاب ٹیسٹوسٹیرون ادویات میں سے سب سے زیادہ طویل الاثر دوا ہے جسے ابھی انسانوں میں استعمال کیا جانا ہے ۔ حتیٰ کہ یہ نبِیڈو Nebido (ٹیسٹوسٹیرون انڈیکونیٹ) کی نسبت بھی زیادہ طویل الاثر ہے حالانکہ دونوں ادویات کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ یہ 12 ہفتے کے دورانیہ کے لیے موثر رہتی ہیں ۔
جب اسے ابتدائی تحقیقات کے طور پر جنسی ہارمونز کی بنیادی کمی کا شکار مریضوں میں استعمال کیا گیا تو 600ملی گرام ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ نے جسم میں 12 ہفتوں تک ٹیسٹوسٹیرون کی مقدار کو برقرار رکھا۔1 کسی بھی گروپ میں ٹیسٹوسٹیرون لیول میں چڑھاؤ/بہت زیادہ اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا تھا جو کہ عموماً ایننتھیٹ اور سِپیونیٹ جیسے ایسٹرز میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کوئی قابل قدر مضر اثرات یا پیشاب آوری میں کوئی غیر موزوں تبدیلیاں دیکھنے کو نہیں ملیں ۔ علاوہ ازیں PSA(پروسٹیٹ سپیسیفک اینٹی جنز) کی مقداروں یا پروسٹیٹ کے حجم میں بھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ انجکشن کی شکل میں دستیاب اینڈروجنز میں سے نہایت سست روی کے ساتھ کام کرنے والا ہارمون ہے جو ممکنہ طور پر ہارمون رپلیسمنٹ تھراپی کے لیے استعمال ہونے والے دیگر ایسٹرز کے متبادل
کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے ۔
پس منظر:۔
ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ پہلی بار 1986میں متعارف ہوا ۔ 2 اسے سٹیرائیڈز کی تیاری کے پروگرام کے حصہ کے طور پر تیار کیا گیا ۔ یہ پروگرام عالمی ادارہ صحت (WHO) کی جانب سے شروع کیا گیا تھا ۔ اس پروگرام کا مقصد ٹیسٹوسٹیرون کے طویل الاثر ایسٹرز تیار کرنا تھا جنہوں نے پہلے سے موجود ایسٹرز جیسا کہ ایننتھیٹ اور سِپیونیٹ کے نقائص پر قابو پایا ۔ ان نقائص میں مختصر عرصہ کے لیے ہارمون کی مقدار میں اضافہ ہونا اور اگلی بار استعمال کرنے سے پہلے اس کی مقدار میں مسلسل کمی اور اینڈروجن لیول میں غیر ہم آہنگی وغیرہ شامل ہیں ۔ پہلے مرحلہ کی تحقیقات 1992 میں مکمل ہوئیں (جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے) جن میں اینڈروجن کی قدرتی پیداوار بند ہونے کی صورت میں ممکنہ طور پر اس ہارمون کو استعمال کرنے کی تجویز دی گئی ۔ بعد کے سالوں میں ہونے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اس دوا کو مردوں میں مانع حمل کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔
3 اب تک ٹیسٹوسٹیرون بیو سی کلیٹ پر کافی زیادہ تحقیق ہوچکی ہے لیکن سست روی سے کام کرنے والے اسی طرح کے ایک اور سٹیرائیڈ Nebido کے برعکس ابھی اسے وسیع استعمال کے لیے نسخہ جاتی دوا کے طور استعمال کرنا باقی ہے ۔
کس شکل میں دستیاب ہے ؟
ٹیسٹوسٹیرون بیو سی کلیٹ فی الوقت کمرشکل دوا کے طور پر دستیاب نہیں ہے ۔
ساختی خصوصیات
ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ ٹیسٹوسٹیرون کی ترمیم شدہ شکل ہے جس میں 17بیٹا ہائیڈراکسل گروپ کے ساتھ کارباکسلک ایسڈ ایسٹر (ٹرانس ۔4۔اِین۔ بیوٹائل سائیکلو ہیگزی۔ کارباکسلیٹ) کو منسلک کیا گیا ہے ۔ ٹیسٹوسٹیرون کی وہ شکلیں جس میں وہ ایسٹرز کے ساتھ منسلک ہوتا ہے وہ اس کی آزاد شکلوں/حالتوں کی نسبت کم پولر ہوتی ہیں اور انجکشن کے مقام سے نہایت آہستگی کے ساتھ جذب ہوتی ہیں۔ خون میں پہنچنے کے بعد ایسٹر الگ ہوجاتا ہے اور یوں آزاد ٹیسٹوسٹیرون حاصل ہوتا ہے ۔ ٹیسٹوسٹیرون کے ساتھ ایسٹر کو منسلک کرنے کا مقصد اس کو استعمال کے بعد طویل وقت کے لیے موثر رکھنا ہوتا ہے تاکہ آزاد سٹیرائیڈز کی نسبت اس کے کم انجکشن لگانے پڑیں ۔ ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ کو اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ اس کا ایک انجکشن لگنے کے بعد جسم میں ٹیسٹوسٹیرون لیول 12ہفتے تک قدرتی سطح پر برقرار رہتا ہے ۔
ایسٹروجینک (مضر اثرات) :۔
جسم میں ٹیسٹوسٹیرون کی فوری ایروماٹائزیشن ہوجاتی ہے اور یہ ایسٹرا ڈائیول (ایسٹروجن) میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ ٹیسٹوسٹیرون کی اس توڑ پھوڑ کا ذمہ دار ایر وماٹیز (ایسٹروجن سنتھیٹیز ) انزائم ہے ۔ ایسٹروجن لیول میں اضافے کے نتیجے میں مضرا ثرات جیسا کہ پانی کا (خلیات) میں جمع ہونا، جسمانی چربی میں اضافہ اور چھاتی کا بڑھ جانا وغیرہ سامنے آتے ہیں۔ ٹیسٹوسٹیرون کو درمیانے درجہ کی ایسٹروجینک خصوصیات کا حامل ہارمون تصور کیا
جاتا ہے ۔ ان ایسٹروجینک مضر اثرات کو روکنے کے لیے اینٹی ایسٹروجن ادویات جیسا کہ کلومیفین سٹریٹ یا ٹیماکسی فین سٹریٹ کا استعمال ضروری ہوسکتا ہے ۔ ایروماٹیز سرگرمی کو روکنے والی دوا جیسا کہ Arimidex (این ایسٹرازول) کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو ایسٹروجن کی تیاری کو روک پر اس کی مقدار پر قابو پاتی ہے ۔ تاہم اینٹی ایسٹروجنزکی نسبت یہ کافی مہنگے ہوتے ہی اور خون میں لپڈز پر ان کے مضر اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں۔
ایسٹروجینک مضر اثرات کا انحصار استعمال کی جانے والی مقدار پر ہوتا ہے ۔ اگر ٹیسٹوسٹیرون کو مجوزہ مقدار سے زیادہ استعما ل کیا جائے تو اس کے فوری بعد ایروماٹیز سرگرمی کو روکنے والی دوا یا اینٹی ایسٹروجن استعمال کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے ۔ چونکہ ٹیسٹوسٹیرون کی زیادہ مقدار استعمال کرنے کی صورت میں (خلیات) میں پانی کا جمع ہونا اور پٹھوں کی بناوٹ میں بگاڑ پیدا ہونا عام ہے اس لیے تربیت کا وہ مرحلہ جس میں پٹھوں کی بناوٹ مطلوب ہو، میں اس کا استعمال عموماً موزوں ثابت نہیں ہوگا۔ اس کی درمیانے درجہ کی ایسٹروجینک خصوصیت اسے مجموعی جسمانی حجم میں اضافے کے لیے موزوں بناتی ہے جہاں (خلیات) میں اضافی پانی کے جمع ہونے سے مجموعی طاقت اور پٹھوں کے حجم میں اضافہ ہوگا اور ایک مضبوط اینابولک ماحول استوار کرنے میں مدد ملے گی۔
(اینڈروجینک ) مضر اثرات: ۔
ٹیسٹوسٹیرون بنیادی مردانہ جنسی ہارمون ہے جو مردوں میں سیکنڈری مردانہ جنسی خصوصیات کا ذمہ دار ہے ۔ ٹیسٹوسٹیرون لیول زیادہ ہونے کی صورت میں اینڈروجینک مضر اثرات جیسا کہ جلد میں تیل کا زیادہ پیدا ہونا، کیل مہاسے اور جسم/چہرے پر بالوں کا اگنا وغیرہ کے امکانات ہوتے ہیں ۔ وہ مرد جن میں بالوں کا گرنا وراثتی خصوصیات میں شامل ہو (اینڈروجینک ایلوپیشیا) ان میں بالوں کے گرنے کی رفتار تیز ہوجائے گی ۔ وہ لوگ جو اپنے بالوں کے گرنے سےمتعلق فکر مند ہیں انہیں نینڈرولون ڈیکینوایٹ کا استعمال زیادہ موزوں رہے گا جس کی اینڈروجینک خصوصیات قدرے کم ہیں ۔ عورتوں کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ ان کی طرف سے اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز کے استعمال سے ان میں ممکنہ طور پر مردانہ خصوصیات ظاہر ہوسکتی ہیں خاص طور پر طاقتور اینڈروجن جیسا کہ ٹیسٹوسٹیرون وغیرہ استعمال کرنے سے۔ ان علامات میں آواز کا بھاری پن ، ماہواری میں بے قاعدگیاں، جلد کی بناوٹ میں تبدیلیاں ، چہرے پر بالوں کا اگنا اور کلائٹورس کا بڑھ جانا وغیرہ شامل ہیں ۔
اینڈروجن کے خلاف ردعمل دینے والے ٹشوز جیسا کہ جِلد، سر کی جلد اور پروسٹیٹ میں ٹیسٹوسٹیرون کی اینڈروجینک خصوصیات کا انحصار اس کے ڈائی ہائیڈرو ٹیسٹوسٹیرون میں تبدیل ہونے پر ہے ۔ ٹیسٹوسٹیرون کی ڈائی ہائیڈروٹیسٹوسٹیرون میں یہ تبدیلی 5۔الفا ریڈکٹیز انزائم کی مدد سے ہوتی ہے ۔ اس انزائم کی سرگرمی کو روکنے والی ادویات جیسا کہ فیناسٹیرائیڈ یا ڈیوٹاسٹیرائیڈ مذکورہ بالا مخصوص جسمانی مقامات پر ٹیسٹوسٹیرون کی توڑ پھوڑ یعنی ڈائی ہائیڈروٹیسٹوسٹیرون میں تبدیلی کو روکتے ہیں جس کی وجہ سے اینڈروجینک ادویات کے مضر اثرات سامنے آنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ۔ یہ بات یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اینابولک اور اینڈروجینک اثرات سیل (خلیہ) کے اندر موجود اینڈروجن ریسپٹر کے ذریعے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ٹیسٹوسٹیرون کی اینابولک اور اینڈروجینک خصوصیات کی مکمل علیحدگی ممکن نہیں ہے حتیٰ کہ 3۔الفا ریڈکٹیز انزائم کی سرگرمی کو مکمل طور پر روک کر بھی ایسا کرنا ممکن نہیں ۔
مضر اثرات (جگر کا زہریلا پن):۔
ٹیسٹوسٹیرون جگر پر زہریلے اثرات مرتب نہیں کرتا اس لیے جگر کے زہریلے پن کے امکانات نہیں ہیں ۔ ٹیسٹوسٹیرون کی وجہ سے جگر میں زہریلا پن پیدا ہونے کے امکانات پر ایک تحقیق کا انعقاد کیا گیا جس میں مردوں کے ایک گروپ کو روزانہ 400ملی گرام (فی ہفتہ 2800ملی گرام ٹیسٹوسٹیرون) مقدار استعمال کرائی گئی ۔ یہ سٹیرائیڈ منہ کے راستے استعمال کرایا گیا تاکہ جگر تک اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار پہنچ سکے بانسبت پٹھوں میں لگائے جانے والے انجکشن کے ۔ یہ ہارمون باقاعدگی کے ساتھ 20دن کے لیے استعمال کرایا جاتا رہا اور اس کی وجہ سے جگر کے انزائم جیسا کہ سیرم البیومن، بلی ریوبن ، ایلانین امائنو ٹرانسفریز اور الکلائن فاسفاٹیز کی مقداروں میں کوئی قابل قدر تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملی۔ 4
(نظام دوران ِ خون ) پر مضر اثرات :۔
اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز سیرم میں موجود کولیسٹرول پر انتہائی مضر اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ ان مضر اثرات میں HDL(اچھے) کولیسٹرول لیول میں کمی کا سبب بننا اور LDL(بُرے) کولیسٹرول میں اضافہ کا سبب بننا
شامل ہیں جس کے نتیجے میں HDLاور LDL کے توازن میں اس طرح کی تبدیلی آتی ہے جو صلابت شریان (یعنی خون کی نالیوں میں لوتھڑے بننے کے امکانات) میں اضافہ کا سبب بنتا ہے ۔ سیرم میں لپڈز کی مقدار پر اینابولک/اینڈروجینک سٹیرائیڈز کا اثر اس کی استعمال ہونے والی مقدار، استعمال کے راستہ (منہ کے راستے یا انجکشن کی شکل میں)، سٹیرائیڈ کی قسم (ایروماٹائزیبل یا نان ایروماٹائزیبل) اور جگر کی طر ف سے کی جانے والی توڑ پھوڑ کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہوتا ہے ۔ چونکہ 1۔ٹیسٹوسٹیرون کی ایروماٹائزیشن با آسانی نہیں کی جاسکتی اس لیے کولیسٹرول پر قابو پانے کی جگر کی صلاحیت پر اس کے منفی اثرات ٹیسٹوسٹیرون یا نینڈرولون کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں لیکن زیادہ تر C-17الفا الکائلیٹڈ سٹیرائیڈز کی نسبت یہ اثرات کم ہوتے ہیں۔ استعمال کے راستے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو منہ کے راستے استعمال ہونے والا 1۔ٹیسٹوسٹیرون انجکشن کی شکل میں استعمال ہونے والا 1۔ٹیسٹوسٹیرون لپڈز پر قدرے زیادہ منفی اثرات مرتب کرے گا۔ اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز بلڈ پریشر اور ٹرائی گلائسرائیڈز پر بھی بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں ۔ یہ شریانوں کی اندرونی تہہ کے پھیلاؤ میں کمی لاتے ہیں اور دل کے بائیں وینٹریکل کے حجم میں اضافہ میں معاونت کرتے ہیں ۔ یہ سب عوامل نظام دوران خون کے عارضہ جات اور ہارٹ اٹیک کے امکانات میں ممکنہ طور پر اضافہ کا سبب بنتے ہیں ۔
مصنوعی سٹیرائیڈ ز کی نسبت ٹیسٹوسٹیرون نظام دوران ِ خون کے عارضہ کے عوامل پر بہت زیادہ اثرانداز نہیں ہوتا ۔ اس کی وجہ جگر کی طرف سے اس کی با آسانی توڑ پھوڑ ہے ۔ اس وجہ سے یہ ہارمون جگر کی طر ف سے کولیسٹرول پر قابو پانے کے عمل پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوتا ۔ ٹیسٹوسٹیرون کا ایروماٹائزیشن کے عمل سے گزر کر ایسٹراڈائیول میں تبدیل ہوجانا بھی اینڈروجن کی طرف سے سیرم لپڈز پر مرتب ہونے والے منفی اثرات پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔
ایک تحقیق میں ٹیسٹوسٹیرون ایسٹر (ایننتھیٹ) 280ملی گرام فی ہفتہ خوراک 12ہفتوں تک استعمال کرنے کے نتیجے میں HDL کولیسٹرول میں بہت معمولی سی تبدیلی دیکھنے کو ملی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایروماٹیز سرگرمی کو روکنے والی دوا استعمال کرنے سے بہت زیادہ (25%)کمی دیکھنے کو ملی ۔
5 تحقیقات جن میں 300ملی گرام ٹیسٹوسٹیرون ایسٹر (ایننتھیٹ) فی ہفتہ کے حساب سے 20ہفتوں کے لیے استعمال کیا گیا اور اس کے ساتھ ایروماٹیز سرگرمی کو روکنے والی ادویات کواستعمال نہیں کیا گیا تھا ، کے نتیجے میں HDLکولیسٹرول میں 13%کمی دیکھنے کو ملی جب کہ 600ملی گرام استعمال کرنے کی صورت مین یہ کمی 21%تھی۔ 6 اس طرح کی کسی دوا کو ٹیسٹوسٹیرون تھراپی میں استعمال کرنے سے پہلے ایروماٹیز انزائم کی سرگرمی رکنے کے منفی اثرات کو زیر غور لانا چاہیئے۔
چونکہ ایسٹروجن سیرم لپڈز پر مثبت انداز میں اثرانداز ہوتا ہے اس لیے وہ افراد جو دل کی صحت سے متعلق فکر مند ہیں ان کی طرف سے ٹیماکسی فین سٹریٹ یا کلومی فین سٹریٹ کو ایروماٹیز انزائم کی سرگرمی روکنے والی ادویات پر ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ یہ جگر میں جزوی ایسٹروجینک اثر پیش کرتی ہیں۔ اس طرح یہ لپڈپروفائل میں بہتری اور اینڈروجنز کے کچھ منفی اثرات کو زائل کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں ۔ 600ملی گرام یا اس سے قدرے زیادہ مقدار فی ہفتہ کے استعمال سے لپڈز کی مقدار لپڈز کی مقداروں میں تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہوتی اور (دل کی حفاظت کے لیے ) اینٹی ایسٹروجن استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ 600ملی گرام یا اس سے قدرے کم مقدار فی ہفتہ کے استعمال سے LDL/VLDL کولیسٹرول، ٹرائی گلائسرائیڈز، ایپولیپوپروٹین، B/C-III، سی۔ ری ایکٹو پروٹین اور انسولین سے متعلق حساسیت میں قابل قدر تبدیلی دیکھنے کو ملتی ہے اور یہ تمام عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مقدار نظام دورانِ خون/دل کے لیے خطرہ کا سبب بننے والے عوامل پر قدرے کم اثر انداز ہوتی ہے ۔
7انجکشن کی شکل میں دستیاب ٹیسٹوسٹیرون ایسٹر کو جب اوسط مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے تو یہ تمام اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز میں سے سب سے محفوظ ترین سٹیرائیڈ تصور کیے جاتے ہیں ۔
نظام دورانِ خون پر تناؤ میں کمی لانے کے لیے یہی تجویز کیا جاتا ہے کہ نظام دورانِ خون کے لیے مفید اور فعال ورزش پروگرام برقرار رکھا جائے اور اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز(AAS) کے استعمال کے پورے دورانیہ کے دوران سیر شدہ روغنیات، کولیسٹرول اور سادہ کاربوہائیڈریٹس کا استعمال کم کردیا جائے۔ علاوہ ازیں مچھلی کا تیل (4گرام فی یوم) اور قدرتی کولیسٹرول /اینٹی آکسیڈنٹ فارمولا جیسا کہ لپڈ سٹیبل یا اس سے ملتی
جلتی پروڈکٹ کا استعمال بھی تجویز کیا جاتا ہے ۔
مضر اثرات(قدرتی ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار میں کمی) :۔
جب کسی بھی اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈ کو پٹھوں کی نشونما کے لیے ضروری موزوں مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے تو توقع یہی ہوتی ہے کہ وہ ٹیسٹوسٹیرون کی قدرتی پیداوار کو روک دیں گے۔ ٹیسٹوسٹیرون بنیادی مردانہ جنسی ہارمون ہے اور ٹیسٹوسٹیرون کی قدرتی پیداوار پر انتہائی طاقتور منفی فیڈ بیک دیتا ہے ۔ اسی طرح ٹیسٹوسٹیرون پر مشتمل ادویات ہائپو تھیلے مس کی طرف سے قدرتی سٹیرائیڈ ہارمونز کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ٹیسٹوسٹیرون کو تحریک دینے والی ادویات کےاستعمال کے بغیر 1سے 4ماہ کے اندر اس کا لیول نارمل سطح پر آجانا چاہیئے۔ نوٹ فرمائیں کہ سٹیرائیڈز کے بے جا /غلط استعمال کے نتیجے میں جنسی ہارمونز کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے علاج معالجہ ضروری ہوجاتا ہے ۔
مذکورہ بالا مضر اثرات حتمی نہیں ہیں ۔ ممکنہ مضر اثرات پر مزید تفصیل کے لیے اس کتا ب کا سیکشن سٹیرائیڈز کے مضر اثرات ملاحظہ فرمائیں۔
استعمال (مردوں میں):۔
اینڈروجن کی کمی کا علاج کرنے کے لیے طبی طریقہ ہائے کار ہر 12ہفتے بعد 600ملی گرام ٹیسٹوسٹیرون کا استعمال تجویز کرتے ہیں ۔ جسمانی نشونما/بڑھوتری کے لیے ہارمون کے لیول کو نارمل سے اوپر لے جانے کے لیے مزید باقاعدگی کے ساتھ دوا استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جسمانی نشونما/باڈی بلڈنگ کے لیے سے موثر طریقہ بلاشبہ یہی ہے کہ سٹیرائیڈ استعمال کرنے کے دورانیہ کے پہلے دوہفتوں کے دوران اس کی 600ملی گرام پر مشتمل 2تا اس سے زائد خوراکوں کا استعمال کرنا ہے۔ اس کے بعد ہر 7تا 15دن بعد ایک پوری خوراک (600ملی گرام) کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کا انحصار ضروری خوراک اور استعمال کیے جانے والے دیگر سٹیرائیڈز پر ہوتا ہے ۔ سائیکل کو اختتام پذیر کرنے سے پہلے دوا کو 6تا 9ہفتے پہلے ترک کردینا چاہیئے اور اس طرح آخری خوراک استعمال کرنے کے 12 ہفتے یا اس سے زائد عرصہ تک اینڈروجن لیول نارمل سے زائد حد تک برقرار رہے گا۔ سائیکل مکمل ہونے کے بعد علاج کی منصوبہ بندی اس کے مطابق کرنی چاہیئے۔ اس طرح ٹیسٹوسٹیرون ایک انتہائی ہمہ گیر سٹیرائیڈ ہے اور مطلوبہ اثر کے مطابق اسے دیگر بہت سے اینابولک /اینڈروجینک سٹیرائیڈز کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے ۔ اگر باڈی بلڈنگ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ ایک موثر دوا ہوگی لیکن (اس کے استعمال سے) آپ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرپائیں گے۔ کوئی بھی شخص جو اس سٹیرائیڈ کاکورس مکمل کرتا ہے ، اس میں اس کے اثرات سست روی کے ساتھ سامنے آئیں گے کیوں کہ ٹیسٹوسٹیرون کےخون میں بہت زیادہ مقدار تک پہنچنے کے لیے اس کے کافی سارے انجکشن لگانے اور وقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس مقدار تک پہنچنے کے بعد ہر 7تا 15دن بعد اس کی مکمل خوراک دینے کی ضرورت پڑسکتی ہے ۔ اس وجہ کی بنا پر ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ ایسے سائیکلز میں اپنی افادیت کھودے گا جو 4یا 5ماہ سے زائد عرصہ کی طوالت کے حامل ہوں جہاں اس کی سست روی سے کام کرنے کی نوعیت اس کے کم انجکشن استعمال کرنے اور استعمال کنندہ کے لیے بہت زیادہ آسانی کی صورت میں مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ مختصر دورانیہ کے استعمال /مختصر سائیکلز میں یہی خصوصیت محض ایک رکاوٹ ہوگی کیوں کہ یہ (تیزی سے عمل کرنے والے ٹیسٹوسٹیرون ایسٹرز کی نسبت) ٹیسٹوسٹیرون لیول میں اضافہ میں تاخیر اور انتہائی طاقت ور اینابولک اثرات کا سبب بنے گا۔
استعمال (عورتوں میں ):۔
ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ کے عورتوں میں استعمال سے متعلق تحقیق نہیں کی گئی ۔ طاقتور اینڈروجینک خصوصیات عورتوں میں مردانہ خصوصیات پیدا کرنے جیسے مضر اثرات اور انتہائی سست روی سے کام کرنے کی خصوصیت کی وجہ سے اسے عورتوں میں جسمانی بناوٹ میں بہتری اور کارکردگی میں اضافہ کی غرض سے استعمال کی تجویز نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے خون میں اس کی مقدار پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے ۔
دستیابی :۔
چونکہ ٹیسٹوسٹیرون بیوسی کلیٹ یورپ میں ابھی تک تحقیقی دوا ہے اس لیے یہ خفیہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے ۔ جب تک اسے سٹیرائیڈ کے ذریعہ ملک کی طرف سے نسخہ جاتی دوا کے طور پر قبول نہیں کیا جاتا یا جب تک مختلف خفیہ لیبارٹریز اس میں دلچسپی نہیں لیتیں تب تک یہ دو ا صرف تحقیقی دلچسپی کی حد تک موجود رہے گی ۔
1 Testosterone buciclate (20 Aet-1) in hypogonadal men: pharmacokinetics and pharmacodynamics of the new long-acting androgen ester. Behre HM, Nieschlag E. J Clin Endocrinol Metab. 1992 Nov;75(5):1204-10.
2 New injectable testosterone ester maintains serum testosterone of castrated monkeys in the normal range for four months. Weinbauer GF, Marshall GR, Nieschlag E. Acta Endocrinol (1986) 113:128-32.
3 Potential of testosterone buciclate for male contraception: endocrine differences between responders and nonresponders. Behre HM, Baus S, Kliesch S, Keck C, Simoni M, Nieschlag E. J Clin Endocrinol Metab. 1995 Aug;80(8):2394-403.
4 Enzyme induction by oral testosterone. Johnsen SG, Kampmann JP, Bennet EP, Jorgensen F. Clin Pharmacol Ther (1976) 20:233-237.
5 High-density lipoprotein cholesterol is not decreased if an aromatizable androgen is administered. Friedi K, Hannan C et al. Metabolism 39(1) 1990:69-74.
6 Testosterone dose-response relationships in healthy young men. Bhasin S, Woodhouse L et al. Am J Physiol Endocrinol Metab (2001) 281:E1172-81.
7 The effects of varying doses of T on insulin sensitivity, plasma lipids, apolipoproteins, and C-reactive protein in healthy young men. Singh A, Hsia S, et al. J Clin Endocrinol Metab (2002) 87:136-43.